ازواج مطہرات اور آج کی خواتین

تحریر:۔ انصاری طوبیٰ ارم،مالیگاوں


اس حقیقت کی تاریخ بھی شاہد ہے کہ قوموں کے عروج و زوال اور سدھار و بگاڑ میں عورتوں کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ وہ چاہے تو قوم کو مثالی بناد اور اگر چاہے تو اس کی مستحکم بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے۔جس طرح معاشرے کی تعمیر میں مرد و عورت دونوں اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح خاندان کی تعمیر بھی دونوں کی بنیادی حیثیت ہوتی ہے۔ لیکن قوم کے ننھے ننھے پودوں کی نگہداشت میں عورتوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے اسی لحاظ سے ان پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ماں کے کردار اور شخصیت سے بچہ زیادہ متاثر ہوتا ہے اور اسی کی تعلیم و تربیت پر بچہ کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ ماں کی گود ہی بچے کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے اسی لئے اچھے سماج کے لئے مثالی عورتیں لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔علاقہ اقبال نے شاید اسی لئے کہا تھا۔ع
وجودزن سے ہے کائنات میں رنگ
اسلامی معاشرے میں ازواج مطہرات کے رول سے کوئی انکار ہی نہیں کرسکتا۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہما کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اپنے وقت کے بگڑے ہوئے اور گندے معاشرے میں شرم و حیاءاور پاکدامنی کے اس مقام پر فائز تھیں کہ لوگ انہیں ” طاہرہ“ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ” خدا کی قسم ہرگز خدا نے ان سے بہتر بیوی مجھے نہیں دی“جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انہوں نے میری تصدیق کی۔ جب میرا کوئی معین و مددگار نہ تھا اس وقت انہوں نے میری مدد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا ایسا خیال تھا کہ ان کے انتقال کے بعدبھی کوئی بکری وغیرہ ذبح کرتے تھے تو گوشت ان کی سہیلیوں کو ضرور بھیج دیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما خوداتنی بڑی عالم تھیں کہ بڑے بڑے صحابی ان سے مسئلے پوچھا کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت سودہ رضی اللہ عنہماانصاف پسندی کے لئے مشہور ہیں۔ جب کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہما ” غریبوں کی ماں“ کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما دین کی حفاظت کے لئے گھر سے بے گھر ہو گئیں تھیں۔ غرض ازواج مطہرات نے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں بہت ہی ام رول اداکیے ہیں اور ہر ایک کا اپنامنفرد مقام ہے۔ ان کی زندگی کا ہر صفحہ ہمارے لئے سبق آموز ہے۔جس کے ذریعے خصوصاً آج کی خواتین خودکواور ہمارے سماج کو سنوارنے میں مددگار ہوسکتی ہیں۔ 
آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں ہر شئے میں انقلابی تبدیلی کے ساتھ خواتین میں بھی زبردست تبدیلی نظر آتی ہے خصوصاً لباس کے تعلق سے جو فرق کل اور آج کی خواتین میں ہے وہ بڑا ہی شرمناک ہے عورتوں نے پردہ تقریباً چھوڑ ہی دیا ہے پردہ کے معنی برقعہ کے لئے جاتے ہیں عورتوں کو گویا برقہ سے نفرت سی ہوگئی ہے۔ اگر کہیں ہے بھی تو وہ بھی ایسا برائے نام ہی نظر آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ بنت حوا شیطان کی پیروی کرنے میں سب سے آگے نظر آتی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں وہ آزادی اور مساوات کے نام پر مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ نظر آتی ہیں سینما اور دیگر محفلوں کی رونق بن کر خود ہی ہوس پرستوں کا شکار بنتی ہیں۔ رنگین ،بھڑکیلے اور تنگ لباس پہن کر مغربی تہذیب کی نقالی کرنے میں پیش پیش ہیں اور اپنی اخلاقی پستی کا خود ہی مظاہرہ کرتی ہ یں۔ گھریلو ذمہ داریوں کو چھوڑ کر سماجی و سیاسی امور میں مردوں کا ہاتھ بٹاتے ہوئے لاشعوری طور پر آج کی خواتین دور جاہلیت میں داخل ہو رہی ہیں۔آج کے مادہ پرستانہ مغرب زدہ دور میں خاص طور پر مسلم خواتین کو سوچنا چاہئے ان کی غیرت کو کیا ہوا؟ جب کہ ان کے پاس ایک مکمل نظام حیات کے ساتھ ساتھ ازواج مطہرات کے عمدہ و اعلیٰ زندگی کے نمونے بھی ہیں اس لئے ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے اسلاف کے کارناموں سے سبق حاصل کرکے خودکواور معاشرے کو سنوارنے میں مسلم خواتین کو پھر ایک بار قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے آگے آنا چاہئے۔