غزل :  عظیم انصاری
غزل :  عظیم انصاری

 

نہیں ایسا کہ میری شکل پہچانی نہیں جاتی

مگر آنکھوں سے ان کی پھر بھی حیرانی نہیں جاتی

 

تعلق  آج کل  ان  سے  ہمارا  خوب ہے لیکن

ابھی بھی ترکِ الفت کی پشیمانی نہیں جاتی

 

ہم اپنی بات سے قائل خرد کو کر بھی لیں پھر بھی

نہیں جاتی ہمارے دل کی منمانی نہیں جاتی

 

سفیدی آگئی ہے ان کے بالوں میں قرینے سے

مگر چہرے سے ان کے اب بھی تابانی نہیں جاتی

 

بظاہر دیکھنے میں گھر مرا آباد ہے لیکن

نہ جانے کیوں مرے دل کی یہ ویرانی نہیں جاتی

 

نظر کے  تیر سے بیدم ہوں میں وہ جانتا تو ہے

مگر اس پر بھی اس کی فتنہ سامانی نہیں جاتی

 

فریبِ عیشِ دنیا سے وہ کوسوں دور ہے لیکن

کسی صورت مگر اس کی پریشانی نہیں جاتی

 

مسلسل وار سہنے سے یہ حالت ہو ہی جاتی ہے

تعجب کیا کریں جب سوزِ پنہانی نہیں جاتی

 

عظیم اب دل کی ندی کی تلاطم  خیزیاں دیکھیں

پرانی یاد کی وہ موجِ طغیانی نہیں جاتی

 

                                  عظیم انصاری، جگتدل مغربی بنگال