پیغمبر اسلام نے اللہ اور صحابہ کی مدد سے فتح مکہ کیا:حافظ فیصل جعفری





کانپور 14 مئی:20 رمضان المبارک کو فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری نے کہا کہ صلح ہدیبیہ میں بنو خزاعہ حضور علیہ السلام کے اور بنو بکر قریش کے مددگار بن گئے تھے لیکن بنو بکر نے بنو خزاعہ کے 20 لوگوں کو جان سے مار دیا اور قریش نے بنو بکر کے جرم پر بھی انکی مدد کی تو اس بات کا علم حضور علیہ السلام کو ہوا تو آپ نے مہاجری (ہجرت کرنے والے) و انصار (مدینے کے وی حضرات جنہوں نے مکہ سے مدینہ آنے والوں کی مدد کہ) اور دوسرے عرب کے قبیلے والوں سے بارہ ہزار لوگوں کا انتخاب فرماکر ایک عظیم لشکر تیار فرمایا اور مکہ کے ان لوگوں کی سرکوبی کیلئے آگے بڑھے جو ساری انسانیت اور محبتوں کے سخت دشمن تھے جب یہ لشکر مرز زہران کی جگہ پر پہونچا تو ابو سفیان (جو مکہ کے لوگوں کی طرف سے حالات کا جائزہ اور لشکر دیکھنے آئے تھے) حضور علیہ السلام کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملے اور کہا کہ تمہارا بھتیجہ تو بہت بڑا بادشاہ ہو گیا ہے تو حضرت عباس نے کہا کہ وہ بادشاہ نہیں بلکہ اللہ کا سچا اور آخری رسول ہے اے ابو سفیان کلمہ پڑھ لے تو ابو سفیان نے بغیر کچھ غور کئے سرکار کا کلمہ پڑھا اور غلاموں میں شامل ہو گئے تنظیم کے ناظم نشرواشاعت مولانا محمد حسان قادری نے فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی جنگ کا آغاز بھی نہ ہو سکا کہ دھوکے سے ابو جہل کا بیٹا اکرمہ جو مکہ کے جاہلوں کا سردار تھا ایک ٹکڑی لیکر حملہ کرتے اس طرف آیا جس طرف خدا کے شیر اور اسلام کے سب سے بڑے کمانڈر حضرت خالد ابن ولید پہرا دے رہے تھے انھوں نے جب اکرمہ کو آتے دیکھا تو اتنا سخت حملہ کہا کہ 24 لوگوں کو مار گرایا اور اسی جھڑپ میں 2 صحابی بھی شہید ہو گئے ان میں ایک صحابی اکرمہ کے ہاتھوں شہید ہوئے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں قاتل اور مقتول (جسکا قتل کیا گیا) دونوں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں صحابہ نے تعجب کیا کہ حضور اکرمہ تو ایمان نہ لایا تو وہ جنت میں کیسے جائیگا؟ غیب بتانے والے آقا نے فرمایا کہ اکرمہ آج مسلمان نہیں ہے لیکن وہ بعد میں ایمان لائیگا اور ایسا ہی ہوا تو حضور علیہ السلام کے پاس آئے اور عرض کی حضور خالد کی تلوار کو رکوائیے ورنہ مکہ میں کوئی نہ بچیگا آپ نے ایک صحابی سے کہا جاؤ اور خالد سے کہا کہ تلوار کو روک لیں لیکن اس صحابی نے کہا کہ تلوار کے وار کو اور بڑھا دو تو حضرت خالد نے دیکھتے ہی دیکھتے 70 لوگوں کو جہنم رسید کر دیا حضور علیہ السلام نے ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میں تم سے تلوار روکنے کو کہا تو تم نے تلوار کیوں چلائی؟اس پر جواب ملا کہ مجھے منع نہیں کیا گیا بلکہ مارنے کو کہا گیا اور جس نے کہا وہ ایسا تھا کہ اسکا پیر زمین پر اور سر آسمان پر تھا اس نے مجھسے کہا کہ تم انھیں نہ ماروگے تو میں تمہیں مار ڈالونگا حضور نے فرمایا کہ وہ اللہ کا ایک فرشتہ تھا اور اللہ بھی یہی چاہتا ہے کہ شہیدان احد (جنگ احد میں جو 70 صحابہ شہید ہوئے) کا بدلہ پورا ہونا چاہئے اس طرح بہت سے ناپاک مارے گئے اور بہت سے لوگ گرفتار ہوئے جن لوگوں کو پکڑا گیا تھا ان سب کو آقا کریم نے معاف فرما دیا اور اپنے رب و اصحاب کی مدد سے آپ نے مکہ کو فتح کر لیا اس کے بعد آپ کعبہ شریف میں داخل ہوئے اسے تمام گندگیوں سے پاک فرماتے اور لب مبارک سے قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ کا ورد فرماتے  (وقل جاء الحق وزحق الباطل ان الباطل کان زہوقا) جس کا ترجمہ ہے حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا یہ واقعہ 20 رمضان المبارک کو واقع ہوا!