ــــــــــــــــــــــــــتنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام بابوپوروہ میں عرس امیر خسرو منعقد ــــــــــــــــــــــــــ
کانپور 10 جون:زمین ہند میں ایسی ہزاروں ہستیاں پیدا ہوئی ہیں جن کے نام ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ناموں کے زندہ رہنے کا راز ان کے کارناموں کی بنیاد پر ہوتا ہے جو لوگ اپنی زندگی عیش و عشرت میں نہ گزار کر مخلوق خدا کی خدمت میں گزارتے ہیں صحیح معنوں میں انھیں ہی دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل ہوتی ہے جن حضرات نے اپنی ذات کو اللہ کے دین اور خدمت خلق کیلئے وقف فرما دیا انھیں حضرات میں ایک نام سلطان الشعراء طوطئہ ہند حضرت خواجہ ابو الحسن (امیر خسرو) رضی اللہ عنہ کا ہے ان خیالات کا اظہار تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام بابوپوروہ میں ہوئے عرس امیر خسرو میں تنظیم کے ناظم نشرواشاعت مولانا محمد حسان قادری نے کیا تنظیم کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری کی صدارت میں ہوئی عرس کی تقریب میں مولانا نے مزید فرمایا کہ آپکے آباء و اجداد دین دار ہونے کے ساتھ مالدار بھی تھے اور آپکے نانا جان کے ساتھ والد بزرگوار حضرت خواجہ محبوب الٰہی رضی اللہ عنہ کے چہیتے مریدوں میں شامل ہیں آپکے والد کریم نے آپکے ساتھ آپکے بھائیوں کو بھی محبوب الٰہی کی غلامی میں داخل کرا دیا محبوب الٰہی چونکہ ابتداء میں آپکے ناناجان کے ہی گھر پر قیام فرما تھے اور کافی وقت رہے اسلئے آپ پر محبوب الٰہی کی خاص نظر کرم تھیں اور آپ اکثر اپنے مرشد کی بارگاہ میں وقت گزارتے امیر خسرو کی ولادت 1253 عیسوی میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی زبانیں سیکھنے کا بڑا شوق تھا فارسی چونکہ مادری زبان تھی تو اس پر عبور حاصل تھا لیکن اسے کے ساتھ آپنے سنسکرت،ترکی،عربی،اردو وغیرہ پر بھی کافی اچھی دسترس حاصل کر لی 18 سال کی عمر میں آپ نے پہلا کلام لکھا جو اس دور میں بڑا مقبول ہوا اور پھر آپ کے کلام نے گویہ زمین ہند ہی نہیں بلکہ اکثر ممالک کے شعراء و اہل بلاغت سے اپنی شاعری کا لوہا منوا لیا حضرت شیخ سعدی جو فارس کے عظیم بزرگ ہونے کے ساتھ فارسی کے ایک زبردست شاعر بھی تھے جب انھوں نے آپکے کلام کو پڑھا تو واہ واہ کر اٹھے اور دہلی کے بادشاہ کو خط لکھا کہ اس بچے (امیر خسرو) پر خاص توجہ دی جائے کیونکہ یہ بچہ بڑا ہوکر بہت آگے جائیگا آپکو اپنے مرشد برحق سے کتنا پیار تھا اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار کوئی حاجت مند حضرت محبوب الٰہی کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور حاجت روائی چاہی اتفاق سے اس وقت محبوب الٰہی کے پاس کچھ نہ تھا آپ نے فرمایا تھوڑا ٹھرو شاید کچھ انتظام ہو جائے اسی درمیان کئی لوگ آئے اور گئے لیکن کسی نے آپکی بارگاہ میں کچھ نذرانہ پیش نہ کیا کہ آپ اس فقیر کی حاجت روائی فرماتے بہت وقت گزرا تو فقیر بولا حضور اب تو کچھ عطا فرما دیں آپ اندر گئے اور اپنے جوتے لاکر اس فقیر کو دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس یہی ہے اللہ تمہارا بھلا کرے فقیر وہ جوتے لیکر باہر نکلا اور کچھ ہو دور گیا ہوگا کہ امیر خسرو آتے ہوئے نظر آئے اور جیسی ہی قریب آئے تو معلوم ہوا کہ یہ مرشد گرامی کے پاس سے آ رہا ہے تو امیر خسرو نے مرشد کی خبر پوچھی اور بے ساختہ بول اتھے کہ مجھے اپنے پیر کی خوشبو آ رہی ہے شاید ان کی کوئی نشانی تمہارے پاس ہے تو فقیر نے آپ کی نعلین شریف دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور کہا کیا تم انھیں فروخت کرنے کو تیار ہو؟ وہ فقیر تیار ہو گیا امیر خسرو کے پاس اس وقت پانچ لاکھ نقرئی ٹنکے تھے جو سلطان نے دئے تھے آپ نے وہ سب کے سب ان کو دے کر بارگاہ مرشد میں اپنے سر پر رکھ کر حاضر ہوئے پھر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ نعلین کے بدلے میں پانچ لاکھ پر ہی اکتفا کر لیا وہ وہ نعلین شریف کے بدلے میں میری جان بھی مانگتا تو بھی میں دینے سے دریغ نہ کرتا اس پر محبوب الٰہی مسکرائے اور فرمایا کہ خسرو تم نے میری نعلین بہت سستے میں خرید لئے حضرت امیر خسرو بہت اچھے اور پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے کسی کا دل توڑنا گناہ سمجھتے تھے کوئی سوال کرنے والا آتا تو اپنی حیثیت سے زیادہ مدد کرتے اور بعد میں کہتے کہ خدارا مجھے معاف کرنا کہ میں تمہارے لئے کچھ نہ کر سکا حضرت محبوب الٰہی کی عمر شریف جب 95 سال ہوئی تو خادم سے فرمایا میرے پاس جتنا مال ہو غریبوں میں تقسیم کر دو پھر نماز عصر کے بعد آپ کا وصال ہوا اس وقت امیر خسرو دہلی میں نہیں تھے جب دہلی آئے اور مرشد کے وصال کی خبر ملی تو روتے ہوئے روضہ پر حاضر ہوکر عرض کی آج تو سورج زمین کے نیچے چلا گیا اس کے بعد آپ نے اپنا سارا مال غریبوں میں تقسیم کر دیا اور خود مرشد کے مزار پر بیٹھ گئے یہاں تک کہ کھانا بھی بہت کم کھانے لگے اور مرشد کی جدائی میں اشعار پڑھ پڑھ کر خوب رویا کرتے اسی حالت میں 18 شوال 1324 عیسوی کو آپکا بھی وصال ہو گیا اور آپکا مزار پاک محبوب الٰہی کی وصیت کے مطابق انکے پہلو کی جانب بنایا گیا اس سے قبل پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے حافظ سکندر ازہری نے کیا اور حافظ محمد زبیر قادری نے نعت پاک پیش کی پروگرام صلاة وسلام کے ساتھ اختتام پزید ہوا اس موقع پر قل شریف کی محفل ہوا اور دعا کی گئی پھر حاضرین میں لنگر کا اہتمام کیا گیا مہمان خصوصی مولانا محمد علی جوہر فینس ایسوسی ایشن کے قومی صدر جناب حیات ظفر ہاشمی رہے شرکاء میں قاری محمد اسلم برکاتی،مولانا محمد سالم مصباحی،حافظ خورشید حشمتی،مولانا عرفان قادری،حافظ فضیل احمد رضوی،حافظ راشد رضوی،کمال الدین وغیرہ لوگ موجود تھے!