چند چہرے ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہوتے ہیں۔جو ریا کاری، تصنع ، شہرت اور ناموری سے بالاتر ہوتے ہوئے گیسوئے اردو اور شعر و سخن کی آبیاری میں اپنی حیات بے مایہ کا ایک طویل حصہ صرف کر دیتے ہیں۔اپنے ذاتی اصراف سے اردو مشاعروں اور شعری طرحی و غیر طرحی نشستوں کا انعقاد کرکے اردو ادب اور شاعروں کو مکمل طور پر فروغ اور استحکام پہنچانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ ان ہی چند شخصیات میں ایک نمایاں نام ’’سعیدالدین انصاری‘‘ المعروف ’’ سعید اعظمی ‘‘ بھی ہیں۔ موصوف۱۵؍اکتوبر۱۹۳۶ عیسوی میں اترپردیش کے اعظم گڑھ کے معروف قصبہ ’’ منڈیار‘‘ میں آنکھیں کھولیں۔ اس وقت لندن میں روایتی ادب کے وسیع سینے پر ترقی پسند ادب کی بنیاد رکھی گئی۔ لیکن اردو دنیا نے دیکھا کہ ترقی پسند ادب تحریک کی طوفانی لہروں کے بہاو کے باوجود سعیداعظمی نے روایتی ادب کو فروغ دینے اور روایتی شاعری کی بقائ و تحفظ میں روایتی شاعری کے پیچ و خم کو سنوارنے اور نکھارنے میں خودکو وقف کر دیا۔
آپ نے اپنی عمر عزیز کے طویل تر عرصے میں اردو ادب میں کئی ادوار کے اتار چڑھاو کو دیکھا ترقی پسند ادب، جدید ادب، جدیدیت مابعد جدیدیت، عصری حسیت اور عصری آگہی۔۔۔۔یہ تمام تحریکیں آپ کے سامنے چیختی چلاتی اور شور مچاتی ہوئی سرد خانوں میں ٹھنڈی ہوگئی مگر آپ کسی بھی تحریک کی شدت و حدت سے خائف ہوئے بغیر روایتی ادب کی دم توڑتی ،سسکتی، بے گور و کفن ہوتی روایت کو چند قطرے ہی سہی، اپنے فن سے آبِ دوام دینے میں آج تک مصروف عمل ہیں۔
روایتی ادب کی انفرادیت برقرار رہیں اس کے لئے آپ نے اپنے دولت کدے پر تقریباً دیڑھ سو طرحی ،غیر طرحی اور تربیتی مشاعرے اپنے ذاتی خرچ سے کرائیں۔ اتنا ہی نہیں روایتی ادب کی بوباس باقی رہے اس کے لئے آپ نے ۲۰۰۲ عیسوی میں’’بزم شیدائے ادب،متھرا‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی تاکہ اردو ادب کی آبیاری اور نئے لکھنے والے شعرائے کرام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ آپ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرکے مختلف ادوار سے متاثر شعرائے کرام کے درمیان آپ روایتی ادب کی ترجمانی کرتے ہوئے ہر مشاعرے میں کامیابی نے آپ کے قدموں کو بوسہ دیا۔ کیونکہ مختلف ادبی تحریکوں سے متاثر شعرائ کے کلام میں ان تحریکوں کا رنگ و آہنگ جھلکتا تھا لیکن سامعین میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہوتی ہے جو صرف اور صرف روایتی شاعری کی نہ صرف امین ہوتی ہیں بلکہ دل و جان سے پسند بھی کرتے ہیںیہی سبب ہے کہ سعید اعظمی کی شاعری اس قدر مقبول ہوئی کہ ملک کے کونے کونے میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں سنتے رہے یہ تادم تحریر یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔آپ کی شاعری اپنے ملک سے نکل کر دیارغیر میں بھی اپناامتیازی اور منفرد مقام بنایا آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سوپر پاور ا مریکہ کی معروف یونیورسٹی’یونیورسٹی آف ساوتھ امریکہ‘ نے آپ کو ڈی لیٹ(D.Lite) کی اعزازی ڈگری عطاکیے۔ برصغیر میں یہ پہلی سند ہے جو ہندوستان کے مشہور و معروف شاعر سعید اعظمی کو تفویض کی گئی۔
سعیداعظمی نے دنیائے اردو کو دو مجموعہ کلاموں سے نوازہ۔ اول مجموعہ کلام’’ سخن سعید‘‘ اور دوسرا شعری مجموعہ’’ پرواز سعید‘‘ کے نام سے شائع ہوا جس کی دنیائے ادب ستائش اور سراہنا کی۔ پرواز سعید کی شاعری زیادہ تر ان پر بیتے ہوئے حالات کی کشمکش، دربدری، ہجرت ،زندگی کے نشیب و فراز، تجربات کا عرق کشید ہے۔ اپنے ہی وطن میں ایک طویل عرصہ تک مہاجرانہ زندگی صرف کرتے ہوئے کبھی حصول علم کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت، کبھی ملازمت اور کبھی کاروباری سرگرمیوں کی خاطر دربدری زندگی کا مقدر رہی۔ بہر کیف پرواز سخن کے مطالعہ کے دوران مشہور شاعر و نغمہ نگار مجروح سلطانپوری کے چند جملے میرے ذہن میں تازہ ہوگئے ایک موقع پر انہوں نے کہا تھاکہ
’’شاعری ایک عمل سہی مگر اس کی نوعیت اظہار عمل کی ہے’یہاں کیسے کہا‘ کی فنی اہمیت ’کیاکہا‘ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔جدید و قدیم کی آویزش میں بھی یہی طریقہ کار فرما ہے۔ بعض تو افراط و تفریظ کی حدوں سے گزر کر بھی موضوع کی ضرورت ہی کے منکر ہیں۔ گویا شاعر ایک پہاڑی طوطا ہے۔جو اس کے جی میں آئے گا، بولے گا۔ معاشرے کو کس بولی کی ضرورت ہے یہ اس کا درد سر نہیں(شعر میں کہتا ہوں ہجے تم کرو،بہ حیثیت جماعت انسانی، خواہشات کی ترجمانی اور فرد کی اپنی تمناوں کا اظہار، ان میں اولیت کسے دی جائے اور کب؟ دونوں ہی باتیں اہم ہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جو شاعر کے سلیقے کا تعین کرتی ہے‘‘
مجھے متذکرہ جملوں کے منظر نامے پر سعید اعظمی کی پرواز سخن کی شاعری اسی معیار و حصار میں دکھائی دیتی ہے۔ بہ نسبت سخن سعید میں شامل شاعری کے۔۔۔ کیونکہ’’ سخن سعید‘‘ کی شاعری خاص الخاص رواتی ہے اور ’’پرواز سعید‘‘ کی شاعری میں روایت کی رمق، ترقی پسندی کی ہمک اور جدیدیت کی نفیس شفق کہیں دور بہت دور سے سر ابھارتی نظر آتی ہے۔ اور کہیں کہیں عصری حسیت اور عصری آگہی کے دریچوں سے ہلکی ہلکی ،بوجھل مدہم شعاع ارتعاش ان کے شعروں میں ملتی ہیں۔ میرے خیال میں ہوسکتا ہے سعید اعظمی نے اردو ادب کے افق پر ابھرے ان ادبی تحریکوں کے ادوار کا ترسیلی تجربات کا ہی عرقِ کشید ہو۔ سعید اعظمی کی شاعری میں شورش الفاظ کی گھن گرج نہیں بلکہ اس میں کڑوی کسیلی، میٹھی حلاوت و گھلاوت کا احساس ہوتا ہے۔کیفِ غم اور کیفِ نشاط ماحول کی اداسی، مسائل کی تلخی، حالات کی تلخی سعید اعظمی کی شاعری کے بنیادی اساس ہیں۔
سعید اعظمی نے روایتی شاعری کے ذریعہ اپنے ورثہ قدیم تمدن کے دیئے جلائے رکھنے کا ایک اہم فریضہ اپنی شاعری کے ذریعہ رواں رکھا ہے۔ جنا ب سعید اعظمی اپنی عمر عزیز کی ۸۴؍ ویں بہار دیکھ رہے ہیں۔ ماشائ اللہ وہ آج بھی تندرست اور صحت مند ہیں۔انہیں دیکھ کر’’بوڑھے درخت کی شادبی‘‘ او ر اس کی چھاوں میں تھکے ماندےبیٹھے مسافروں،ہنستے کھیلتے بچوں جیسا منظر یاد آجاتا ہے کیونکہ سعید اعظمی کی حلقہ تلمذ کی تعدادخاصی ہے اور یہ بوڑھا درخت اپنی مکمل شادابی کے ساتھ اپنی علمی، فنی فیضیابی سے انہیں معمور کر رہا ہے۔
نوٹ:۔محترم المقام سعید اعظمی صاحب پریس انفارمیشن بیورو(PIB)ممبئی، میں اپنی بے بہاں خدمات انجام دینے والے جناب اختر انصاری صاحب کے والد محترم ہیں۔اختر انصاری صاحب میرے عزیزدوست اور بھائی ہیں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دنیائے شعر و ادب کے آفتاب اور ماہتاب محترم سعید اعظمی کے متعلق اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس کی زینت بنانے کی کوشش کیا ہوں۔گر قبول افتد رہے عز و شرف۔
آپ نے اپنی عمر عزیز کے طویل تر عرصے میں اردو ادب میں کئی ادوار کے اتار چڑھاو کو دیکھا ترقی پسند ادب، جدید ادب، جدیدیت مابعد جدیدیت، عصری حسیت اور عصری آگہی۔۔۔۔یہ تمام تحریکیں آپ کے سامنے چیختی چلاتی اور شور مچاتی ہوئی سرد خانوں میں ٹھنڈی ہوگئی مگر آپ کسی بھی تحریک کی شدت و حدت سے خائف ہوئے بغیر روایتی ادب کی دم توڑتی ،سسکتی، بے گور و کفن ہوتی روایت کو چند قطرے ہی سہی، اپنے فن سے آبِ دوام دینے میں آج تک مصروف عمل ہیں۔
روایتی ادب کی انفرادیت برقرار رہیں اس کے لئے آپ نے اپنے دولت کدے پر تقریباً دیڑھ سو طرحی ،غیر طرحی اور تربیتی مشاعرے اپنے ذاتی خرچ سے کرائیں۔ اتنا ہی نہیں روایتی ادب کی بوباس باقی رہے اس کے لئے آپ نے ۲۰۰۲ عیسوی میں’’بزم شیدائے ادب،متھرا‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی تاکہ اردو ادب کی آبیاری اور نئے لکھنے والے شعرائے کرام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ آپ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرکے مختلف ادوار سے متاثر شعرائے کرام کے درمیان آپ روایتی ادب کی ترجمانی کرتے ہوئے ہر مشاعرے میں کامیابی نے آپ کے قدموں کو بوسہ دیا۔ کیونکہ مختلف ادبی تحریکوں سے متاثر شعرائ کے کلام میں ان تحریکوں کا رنگ و آہنگ جھلکتا تھا لیکن سامعین میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہوتی ہے جو صرف اور صرف روایتی شاعری کی نہ صرف امین ہوتی ہیں بلکہ دل و جان سے پسند بھی کرتے ہیںیہی سبب ہے کہ سعید اعظمی کی شاعری اس قدر مقبول ہوئی کہ ملک کے کونے کونے میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں سنتے رہے یہ تادم تحریر یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔آپ کی شاعری اپنے ملک سے نکل کر دیارغیر میں بھی اپناامتیازی اور منفرد مقام بنایا آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سوپر پاور ا مریکہ کی معروف یونیورسٹی’یونیورسٹی آف ساوتھ امریکہ‘ نے آپ کو ڈی لیٹ(D.Lite) کی اعزازی ڈگری عطاکیے۔ برصغیر میں یہ پہلی سند ہے جو ہندوستان کے مشہور و معروف شاعر سعید اعظمی کو تفویض کی گئی۔
سعیداعظمی نے دنیائے اردو کو دو مجموعہ کلاموں سے نوازہ۔ اول مجموعہ کلام’’ سخن سعید‘‘ اور دوسرا شعری مجموعہ’’ پرواز سعید‘‘ کے نام سے شائع ہوا جس کی دنیائے ادب ستائش اور سراہنا کی۔ پرواز سعید کی شاعری زیادہ تر ان پر بیتے ہوئے حالات کی کشمکش، دربدری، ہجرت ،زندگی کے نشیب و فراز، تجربات کا عرق کشید ہے۔ اپنے ہی وطن میں ایک طویل عرصہ تک مہاجرانہ زندگی صرف کرتے ہوئے کبھی حصول علم کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت، کبھی ملازمت اور کبھی کاروباری سرگرمیوں کی خاطر دربدری زندگی کا مقدر رہی۔ بہر کیف پرواز سخن کے مطالعہ کے دوران مشہور شاعر و نغمہ نگار مجروح سلطانپوری کے چند جملے میرے ذہن میں تازہ ہوگئے ایک موقع پر انہوں نے کہا تھاکہ
’’شاعری ایک عمل سہی مگر اس کی نوعیت اظہار عمل کی ہے’یہاں کیسے کہا‘ کی فنی اہمیت ’کیاکہا‘ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔جدید و قدیم کی آویزش میں بھی یہی طریقہ کار فرما ہے۔ بعض تو افراط و تفریظ کی حدوں سے گزر کر بھی موضوع کی ضرورت ہی کے منکر ہیں۔ گویا شاعر ایک پہاڑی طوطا ہے۔جو اس کے جی میں آئے گا، بولے گا۔ معاشرے کو کس بولی کی ضرورت ہے یہ اس کا درد سر نہیں(شعر میں کہتا ہوں ہجے تم کرو،بہ حیثیت جماعت انسانی، خواہشات کی ترجمانی اور فرد کی اپنی تمناوں کا اظہار، ان میں اولیت کسے دی جائے اور کب؟ دونوں ہی باتیں اہم ہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جو شاعر کے سلیقے کا تعین کرتی ہے‘‘
مجھے متذکرہ جملوں کے منظر نامے پر سعید اعظمی کی پرواز سخن کی شاعری اسی معیار و حصار میں دکھائی دیتی ہے۔ بہ نسبت سخن سعید میں شامل شاعری کے۔۔۔ کیونکہ’’ سخن سعید‘‘ کی شاعری خاص الخاص رواتی ہے اور ’’پرواز سعید‘‘ کی شاعری میں روایت کی رمق، ترقی پسندی کی ہمک اور جدیدیت کی نفیس شفق کہیں دور بہت دور سے سر ابھارتی نظر آتی ہے۔ اور کہیں کہیں عصری حسیت اور عصری آگہی کے دریچوں سے ہلکی ہلکی ،بوجھل مدہم شعاع ارتعاش ان کے شعروں میں ملتی ہیں۔ میرے خیال میں ہوسکتا ہے سعید اعظمی نے اردو ادب کے افق پر ابھرے ان ادبی تحریکوں کے ادوار کا ترسیلی تجربات کا ہی عرقِ کشید ہو۔ سعید اعظمی کی شاعری میں شورش الفاظ کی گھن گرج نہیں بلکہ اس میں کڑوی کسیلی، میٹھی حلاوت و گھلاوت کا احساس ہوتا ہے۔کیفِ غم اور کیفِ نشاط ماحول کی اداسی، مسائل کی تلخی، حالات کی تلخی سعید اعظمی کی شاعری کے بنیادی اساس ہیں۔
سعید اعظمی نے روایتی شاعری کے ذریعہ اپنے ورثہ قدیم تمدن کے دیئے جلائے رکھنے کا ایک اہم فریضہ اپنی شاعری کے ذریعہ رواں رکھا ہے۔ جنا ب سعید اعظمی اپنی عمر عزیز کی ۸۴؍ ویں بہار دیکھ رہے ہیں۔ ماشائ اللہ وہ آج بھی تندرست اور صحت مند ہیں۔انہیں دیکھ کر’’بوڑھے درخت کی شادبی‘‘ او ر اس کی چھاوں میں تھکے ماندےبیٹھے مسافروں،ہنستے کھیلتے بچوں جیسا منظر یاد آجاتا ہے کیونکہ سعید اعظمی کی حلقہ تلمذ کی تعدادخاصی ہے اور یہ بوڑھا درخت اپنی مکمل شادابی کے ساتھ اپنی علمی، فنی فیضیابی سے انہیں معمور کر رہا ہے۔
نوٹ:۔محترم المقام سعید اعظمی صاحب پریس انفارمیشن بیورو(PIB)ممبئی، میں اپنی بے بہاں خدمات انجام دینے والے جناب اختر انصاری صاحب کے والد محترم ہیں۔اختر انصاری صاحب میرے عزیزدوست اور بھائی ہیں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دنیائے شعر و ادب کے آفتاب اور ماہتاب محترم سعید اعظمی کے متعلق اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس کی زینت بنانے کی کوشش کیا ہوں۔گر قبول افتد رہے عز و شرف۔
مبصر:۔محمد یوسف رانا،ممبئی
9004200983
9004200983