تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام چمن گنج میں یوم اعلیٰ حضرت منعقد





کانپور 3 جون:اعلیٰ حضرت کا نام امام احمد رضا ہے آپکی ولادت شہر بریلی میں 10 شوال 1272 ہجری بروز سنیچر بوقت ظہر ہوئی 4 سال کی چھوٹی سی عمر میں قرآن پاک کا ناظرہ فرما لیا اور 6 سال کی عمر میں ممبر پر مجمے میں میلاد شریف پڑھا اردو فارسی کے بعد آپنے اپنے والد گرامی حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے عربی تعلیم حاصل کی اور 13 سال 10 ماہ کی عمر میں ایک زبردست عالم ہوگئے 14 شعبان 1282 ہجری میں آپکو سند فراغت عطا کی گئی اور اسی روز آپکے والد نے آپکی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے آپکو فتویٰ دینے کی اجازت دے دی ان خیالات کا اظہار تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام چمن گنج میں ہوئے یوم اعلیٰ حضرت پر تنظیم کے سکریٹری قاری محمد عادل رضا ازہری نے کیا تنظیم کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری کی صدارت میں ہوئے جلسہ کو مولانا نے مزید فرمایا کہ حضرت سید آل رسول ماہریروی علیہ الرحمہ سے آپکو شرف بیعت کے ساتھ علوم باطنی بھی حاصل ہوئے اور آپکے مرشد کو اس بات پر فخر تھا کہ احمد رضا میرا مرید ہے جب آپ حج کیلئے حرمین شریفین میں حاضر ہوئے تو وہاں کے دقاق علمائے دین آپکے علم و فضل کا لوہا ماننے لگے کتنے ہی علماء نے آپکے نورانی ہاتھوں پر بیعت کی اور ہزاروں نے تو آپکو علم میں اپنا استاذ تسلیم کیا ہوش سنبھالنے کے بعد آپنے اپنی ساری زندگی مذہب حق کی تبلیغ و خدمت کیلئے بسر فرمائی آپنے 1000 سے زائد کتابیں لکھیں جن میں قرآن پاک کا ترجمہ،،کنز الایمان اور فتاویٰ رضویہ،،بے مثل و لاجواب ہیں آپکے زمانے میں نام نہاد مسلمانوں نے خود کو انگریزوں کے ہاتھ بیچ کر اس امت کا شیرازا بکھیر رکھا تھا آپنے اپنے زور قلم و زبان سے انکے دانت کھٹے کر دئے اور زمین ہندوستان میں سنیت کو خوب فروغ بخشا جب نام نہاد مسلمانوں نے اپنی کتابوں میں سرکار علیہ السلام کی بے ادبی کرنی شروع کی تو آپنے انکے خلاف فتوئے کفر صادر فرمایا اور ان ملاؤں کو لوہے کے چنے چبوا دئے پھر آپنے انکے کفر پر جو فتوے دئے ان فتؤں کو ایک کتاب کی صورت دی گئی جسکا نام،،حسام الحرمین،،ہے علمائے عرب و عجم نے اس کتاب کی تائید کی اور ہر اس شخص کو گمراہ گر کہا جس پر اعلیٰ حضرت نے فتوئے کفر صادر فرمایا دین پاک کی سمجھ رکھنے والے علماء اور پیروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعلیٰ حضرت اس دین کے محافظ و نگہبان ہیں آپکی کتابیں عشق رسول علیہ السلام کا جام پلاتی ہیں آپکی شاعری محبت رسول علیہ السلام میں سرشار کرتی ہے آپکی ذات سے ہر مسلمان کو سبق لینا چاہئے کہ محبت رسول کے تقاضہُ کیا ہوتے ہیں آپکا وصال 25 صفر 1340 ہجری میں محلہ سوداگران بریلی شریف میں ہوا اور وہیں آپکی تدفین ہوئی آپکی خانقاہ میں ہر مذہب کے لوگ حاضر ہوکر فیضیاب ہوتے ہیں اس سے قبل جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے حافظ محمد عرفان نے کیا اور حافظ مشرف،محمد حسین ازہری نے نعت پاک پیش کی اس موقع پر سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے نام طوشہ شریف کی نذر پیش کی گئی جلسہ صلاة و سلام و دعا کے ساتھ اختتام پزید ہوا بعدہُ جلسہ حاضرین میں شیرنی تقسیم کی گئی شرکاء میں معین الدین ازہری،ضیاء الدین ازہری،احمد رضا ازہری،شاہنواز رضا ازہری،محمد عاقب برکاتی وغیرہ لوگ موجود تھے!