شعبان المعظم کی پندرہویں شب کو اپنے اپنے گھروں میں عبادت کرکے اللہ کو راضی کریں:حافظ فیصل جعفری





کانپور 6 اپریل:کورونا وائرس جیسی وبا پر کئے گئے لاک ڈاؤن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس بار قبرستان نہ جاکر اپنے اپنے مکانوں میں کثرت سے عبادت کریں اپنے جملہ مرحومین کیلئے ایصال ثواب کریں اور کورونا جیسی وبا سے نجات پانے کیلئے اللہ کی بارگاہ میں اشک بار ہوکر دعا کریں یہ اپیل تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے صدر و سنی جمعیة العلماء کے نائب صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری  نے کی ہے انھوں نے شب برآت کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برأت کہاجاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں‘چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کوشب برأت کہتے ہیں اس رات کولیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلتہ الرحمتہ رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے۔

جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’لیلتہ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے افضل کوئی رات نہیں

جس طرح مسلمانوں کے لئے زمین میں دوعیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان میں دوعیدیں ہیں ایک شب برأت اوردوسری شب قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عیدالفطر اورعیدالاضحی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کوہی

اس رات سے مرادشب قدر ہے یا شب برأت ان آیات کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوربعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ’’لیلتہ مبارکہ‘‘سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے۔اس رات میں زندہ رہنے والے ‘فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت کوابن جریر‘ابن منذر اورابن ابی حاتم نے بھی لکھا ہے‘اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوح محفوظ سے نقل کرنے کاآغاز شب برأت سے ہوتا ہے اوراختتام لیلتہ القدر میں ہوتاہے

یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امورتوپہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر ان شب میں ان کے لکھے جانے کا کیامطلب ہے؟جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امورہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔

حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کوایک فہرست دے کرحکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کوآئندہ سال مقررہ وقتوں پرقبض کرنا‘تواس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے‘ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوارہاہوتاہے حالانکہ ان کے نام مردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں۔

حضرت عثمان بن محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارمدینہﷺ نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کاوقت اس رات میں لکھاجاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اوراس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کانام مردوں کی فہرست میں لکھاجاچکاہوتاہے۔

چونکہ یہ رات گزشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہ الہٰی میں پیش ہونے اورآئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لئے اس رات میںعبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کاباعث ہے اورسرکاردوعالمﷺکی یہی تعلیم ہے۔

مغفرت کی رات

شب برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

ـ1ـ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضوراکرمﷺ کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھاکہ آپﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کارسولﷺ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا ومولیٰﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اورقبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے

شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کوپہنچ گئی۔

-2حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقامولیٰﷺ نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے

-3 حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم وکرم سے تمام مخلوق کوبخش دیتا ہے سوائے مشرک اورکینہ رکھنے والے کے

-4حضرت ابوہریرہ ‘حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت ابوثعلبتہ اورحضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایساہی مضمون مروی ہے

-5 حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آقاومولیٰﷺ نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو اشخاص کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اوردوسرا کسی کوناحق قتل کرنے والا‘‘

-6امام بیہقی نے شعب الایمان(جلد نمبر3صفحہ 384 )میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کابھی ذکر ہے: رشتے ناتے توڑنے والا‘بطورتکبرازارٹخنوں سے نیچے رکھنے والا‘ماں باپ کانافرمان ‘شراب نوشی کرنے والے۔

-7حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی طویل حدیث میںان لوگوں کابھی ذکر ہے جادوگر‘کاہن ‘سودخور اوربدلہ کار‘یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی‘ پس ایسے لوگوں کوچاہئے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد ازجلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اوربخشش ومغفرت کے حق دارہوجائیں۔

’’ارشادباری تعالیٰ ہوا: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کروجوآگے کونصیحت ہوجائے

یعنی توبہ ایسی ہونی چاہئے جس کااثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اوراس کی زندگی گناہوں سے پاک اورعبادتوں سے معمورہوجائے‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی۔یارسول اللہﷺ توبتہ النصوح کسے کہتے ہیں ارشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پرسخت نادم اورشرمسارہو‘پھربارگاہ الہٰی میں گڑگڑاکر مغفرت مانگے اورگناہوں سے بچنے کاپختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزدنہ ہوگا۔

رحمت کی رات

شب برأت فرشتوں کوبعض اموردیئے جانے اورمسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤوں کے قبول ہونے کی رات ہے۔

-1حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ کاارشاد ہے‘جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔ہے کوئی مغفرت کاطالب کہ اس کے گناہ بخش دوں‘ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔اس وقت اللہ تعالیٰ سے جومانگاجائے وہ ملتاہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔سوائے بدکارعورت اورمشرک کے‘‘

-2حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا ومولیٰ ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔

یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شب بیداری کی فضیلت کے عنوان کے تحت حدیث پاک تحریرکی گئی شب برأت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اورشب بیدار مومنوں کے لئے توہررات شب برأت ہے مگریہ رات خطاکاروں کے لئے رحمت  وعطااوربخشش ومغفرت کی رات ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پرندامت کے آنسو بہائیں اور رب کریم سے دنیا وآخرت کی بھلائی مانگیں‘اس شب رحمت خداوند ہرپیا سے کوسیراب کردیناچاہتی ہے اورہرمنگتے کی جھولی گوہر مراد سے بھردینے پرمائل ہوتی ہے‘ بقول اقبال‘رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسی راہرو منزل ہی نہیں

شب بیداری کااہتمام

شب برأت میں سرکاردوعالمﷺ نے خود بھی شب بیداری کی اوردوسروں کوبھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپﷺ کافرمان عالیشان اوپرمذکورہوا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتوشب بیداری کرو اوردن کوروزہ رکھو‘اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علماء اہلسنّت اورعوام اہلسنّت کاہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ اس رات میں شب بیداری کااہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالدبن معدان‘حضرت مکحول‘حضرت لقمان بن عامر اورحضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے‘‘۔

علامہ ابن الحاج مالکی رحمتہ اللہ علیہ شب برأت کے متعلق رقمطرازہیں’’اورکوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے‘ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی بہت تعظیم کرتے اوراس کے آنے سے قبل اس کے لئے تیاری کرتے تھے ۔پھرجب یہ رات آتی تووہ خوش وجذبہ سے اس کااستقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات  ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کابہت احترام کیاکرتے تھے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس مقدس رات میں مسجد میں جمع ہوکرعبادات میں مشغول رہیں جیسا کہ اس رات شب بیداری کااہتمام کرنا تابعین کرام کاطریقہ رہا ہے‘شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں اب جوشخص شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرے تو یہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب  ہے‘رسول کریمﷺ کایہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شب برأت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے قبرستان تشریف لے گئے تھے آقاومولیٰ ﷺ نے زیارت قبورکی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے موت یادآتی ہے اورآخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے(زیارت قبورکے دلائل وفوائد سے متعلق تفصیلی گفتگوفقیر کی کتاب’’مزارات اولیاء اورتوسل‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔شب برأت میں زیارت قبور کاواضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کویاد رکھیں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو‘ یہی شب بیداری کااصل مقصد ہے۔

اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ جب آپ شب برأت میں گھر سے باہرتشریف لائے توآپ کاچہرہ یوں دکھائی دیتا تھاجس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالاگیا ہو۔آپ سے اس کاسبب پوچھاگیاتوآپ نے فرمایاخدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمندر میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اوربچنے کی کوئی امید نہ ہو‘پوچھاگیا آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں‘ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھرردکردی جائیں گی۔اللہ اکبر نیک ومتقی لوگوں کایہ حال ہے جوہررات شب بیداری کرتے ہیں اورتمام دن اطاعت الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جواس مقدس رات میں فکر آخرت اورعبادت ودعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلاہوجاتی ہیں آتش بازی پٹاخے اوردیگرناجائز امورمیں مبتلاہوکر وہ اس مبارک رات کاتقدس پامال کرتے ہیں‘حالانکہ آتش بازی اورپٹاخے نہ صرف ان لوگوں اوران کے بچوں کی جان کیلئے خطرہ ہیں بلکہ اردگرد کے لوگوں کی جان کیلئے بھی خطرے کاباعث بنتے ہیں‘ایسے لوگ’’مال برباد اورگناہ لازم‘‘کامصداق ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اوردوسروں کوبھی بچائیں اوربچوں کوسمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اورا س کے پیارے حبیبﷺ ناراض ہوتے ہیں‘ مجددبرحق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں‘آتشبازی جس طرح شادیوں اورشب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کاضیاع ہے‘ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا‘ارشاد ہوا’’اورفضول نہ اڑابے شک(مال)اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘(بنی اسرائیل)

شعبان کے روزے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ’’میں نے آقاومولیٰﷺ کوماہ رمضان کے علاوہ ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا‘ایک اور روایت میں فرمایا’’نبی کریمﷺ چند دن چھوڑ کرپورے ماہ شعبان کے روزے رکھتے تھے‘‘(ایضاً۔

آپ ہی سے مروی ہے کہ سرکاردعالمﷺ نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اوررمضان میری امت کا مہینہ ہے نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے’’جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہ شعبان میں ملک الموت کودی جاتی ہے اس لئے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرانام اس وقت فہرست میں لکھاجائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں‘‘یہ حدیث پہلے مذکورہوچکی ہے کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دارلکھے جانے کامطلب یہ ہے کہ بوقت کتابت(شب)اللہ تعالیٰ روزہ کی برکت کوجاری رکھتا ہے!