کانپور 6 دسمبر: پیران پیر دستگیر سرکار غوث اعظم شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام چھٹا سالانہ گیارہ روزہ اجلاس بنام جشن غوث الوریٰ و اصلاح معاشرہ کا سلسلہ جاری ہے جسکا آٹھواں جلسہ جامعہ نوریہ مدینة العلوم مصطفےٰ نگر مچھریا میں منعقد ہوا اس موقع پر حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کی تاریخ وصال پر انکا عرس بھی منایا گیا جسکی سرپرستی سنی جمعیة العلماء اتر پردیش کے صدر حضرت علامہ مفتی محند الیاس خاں نوری و صدارت تنظیم کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری رضوی نے کی مدرسہ ہٰذا کے استاذ مولانا محمد اسرائیل قادری نے خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ بندگان خدا میں جب گمراہی پھیلتی ہے اور نافرمانی عام ہو جاتی ہے تو رب کریم کی رحمت بے پایاں متوجہ ہوتی ہے اور خداوند قدوس اپنے خاص بندوں میں سے کسی نہ کسی کو پیکر رشدو ہدایت بناکر بھیجتا ہے اسی لئے اس خاگدان گیتی میں وقتاّ فوقتاّانبیاء و رسل کا قافلہ آتا رہا جو انسانوں کی نافرمانیوں اور گمراہیوں سے بچاتا رہا ہے اور دنیا والوں کو راہ ہدایت دکھاتا رہا حتیٰ کہ نبی آخر الزماں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور آپکے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہو گیا لیکن جہاں رب کریم نے انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ ختم فرمایا وہیں پر اپنے فضل سے ولایت کا دروازہ کھول دیا اور عہد رسالت سے لیکر آج تک اولیائے امت کا ظہور ہوتا ریا اور تا قیامت ہوتا رہیگا معلم کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے،،علماء امتی کا نبیاّبنی اسرائیل یعنی میری امت کے اولیاء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں سرکار کا یہ ارشاد مبارک اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ ابتک مخلوق کی رشدوہدایت کا جو کام انبیاء کرام کے ذریعے ہوتا چلا آرہا تھا کہ اب وہ خدمات نبی آخر الزماں کی امت کے اولیائے کرام انجام دینگے لھٰذا اللہ کے ان مقدس بندوں نے مخلوق کے بگڑے ہوئے حالات کو سنوارا اور انکے اخلاق و کردار کی درستگی اور ایمان کی پختگی کیلئے بے انتہا سعی فرماکر قدم قدم پر اللہ کے گمراہ بندوں کیلئے حق و صداقت اور ایمان و عرفان کی نشادہی فرماتے رہے اور مکمل طور پر فریضئہ تبلیغ و ہدایت کا حق ادا کرتے ریے ان مصلحین امت میں سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بلندوبالا شخصیت محتاج تعارف نہیں جن کے فضل و کمال کی ضیاء پاشیوں سے آج زمین کا چپہ چپہ تابناک ہے آپکے کلام میں اس طرح کی تیزی اور بلندی تھی جو سامعین کے دل میں خوف کے ساتھ عجیب لذت پیدا کر دیتی تھی جب آپ خطاب فرماتے تو پورے مجمع میں آپکی آواز برابر سنائی دیتی تھی ہزاروں کے مجمع میں ہر شخص آپکی آواز بخوبی سن لیتا تھا جب آپ جامع مسجد میں تشریف لائے تو لوگ اپنے ہاتھ دعاکیلئے اٹھا دیتے اور آپکے وسیلے سے جو بھی دعا مانگتے رب کریم پوری فرما دیتا اور آج بھی آپکے توسل سے دعائیں قبول ہوتی ہیں ـ تنظیم کے رکن مولانا عادل رضا ازہری نے حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کی تاریخ وصال پر انکی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آپکا پورا نام ابو عبد اللہ انس بن مالک اسبحی ہیں آپکی ولادت 103ہجری میں ہوئی تفسیر نعیمی میں ہے آپکی ولادت سے قبل یہ کرامت کتنی عظیم ہے کہ آپ اپنی والدہ کریمہ کے شکم میں 3 سال تک رہے جبکہ اور بچے ایک سال کے اندر ہی تولد ہو جاتے ہیں آپ دار الحجرہ کے لقب سے مشہور ہیں مذہب مالکی کے امام ہیں دین میں بڑے مضبوط تھے آپ تبع تابعین (جنہوں نے صحابی کو دیکھا وہ تابعی اور جنہوں نے تابعی کو دیکھا انہیں تبع تابعی کہتے ہیں) میں ہیں آپ امام بخاری اور امام مسلم سے پہلے کے بزرگ ہیں آپکی کتاب معتیٰ امام مالک بخاری و مسلم سے پہلے لکھی گئی (یہ اور بات ہے کی بخاری و مسلم کا رتبہ فن حدیث میں اعلیٰ مانا جاتا ہے) ابو عبد اللہ کنیت کے 4 ہی بزرگ گزرے ہیں جنمیں پہلے آپ دوسرے حضرت سفیان سوری تیسرے حضرت امام شافعی اور چوتھے امام احمد ابن حنبل ہیں آپ بڑے زبردست محدث اور عاشق رسول تھے آپ حدیثوں کا کتنا ادب فرماتے تھے اسکے لئے نزہت القاری کی اس روایت کو دیکھیں کہ جب لوگ امام مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سننے کی فرمائش کرتے تو آپ پہلے غسل فرماتے سفید لباس پہنتے سر پر عمامہ باندھتے چادر اوڑھتے خوشبو لگاتے کرسی رکھواتے پھر باہر تشریف لاتے اودھ و انبر کی دھونی لگواکر پورے ادب کے ساتھ دل لگاکر حدیث رسول علیہ السلام پڑھتے اور سناتے جب لوگ آپ سے پوچھتے کی آپ حدیث کے درس کیلئے اتنا احترام کیوں کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابیُ رسول حضرت سعید ابن مصیب رضی اللہ عنہ سے یہ طریقہ پایا ہے اور عشق رسول علیہ السلام تو اس قدر سینے میں بسا ہوا تھا کہ جب حج کیلئے حرمین شریفین کی حاضری نصیب ہوئی تو ایک حج کے بعد دوسرا حج نہ کیا اور پوری زندگی مدینہ شریف میں ہی رہے اس ارادے سے کہ کہیں مجھے مدینہ شریف کے باہر موت نہ آ جائے آپ کبھی مدینہ شریف میں گھوڑے پر سوار نہ ہوئے اس ڈر سے کہ جہاں میرے گھوڑے کے پاؤں پڑینگے اگر وہاں میرے آقا کے قدم مبارک پڑے ہونگے (جو کہ عرش اعظم سے بھی افضل ہیں) تو میں خود سے کیسےنظر ملا سکونگا آپکی ہر ادا بے مثال ہے آپکا نہ تو کوئی ثانی ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے آپ اپنی آخری سانسوں تک مدینہ طیبہ ہی میں رہے اور 7 ربیع الآخر کو 179ہجری میں آپکا وصال ہوا آپکا روضہ پرنور جنت البقیع شریف میں ہے
اس سے قبل جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے حافظ محمد عثمان نے کیا اور نظامت حافظ محمد ذیشان نے کی عثمان رضا،غفران رضا محمد سہیل نے بارگاہ غوث اعظم میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا جلسہ صلاة و سلام کے ساتھ اختتام پزید ہوا بعدہُ جلسہ حضرت امام مالک کا قل شریف ہوا اور دعا کی گئی پھر حاضرین میں شیرینی تقسیم کی گئی ـ شرکاء میں مولانا محمد معراج،حافظ محمد منصور،صوفی عقیل ازہری،ڈاکٹر نثار احمد صدیقی،امتیاز بھائی،محمد ابصار،راشد علی،سلیم بھائی،شاہد بھائی وغیرہ لوگ موجود تھے ـ