حضرت صابر پاک رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی پرہیزگاری کا عملی نمونہ تھے:حافظ فیصل جعفری



ــــــــــــــ تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام چمن گنج میں عرس صابر پاک منعقد ــــــــــــــــــ

 

کانپور 12 نومبر:اللہ کے مقدس ولی حضرت مخدوم علاءالدین علی احمد صابر پیا کلیری رضی اللہ عنہ کے عرس مبارک پر انکی بارگاہ عالی وقار میں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام سالہائے گزشتہ کی طرح امسال بھی چمن گنج میں عرس کی محفل منعقد ہوئی اس موقع پر تنظیم کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری نے خطاب فرماتے ہوئے کہا حضرت صابر پاک نواسہُ رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی نسل پاک سے ہیں آپکی ولادت 19 ربیع الاول 596 ہجری میں وقت تہجد ملک افغانستان میں ہوئی آپکی ولادت سے قبل آپکی والدہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا کہ اس بچہ کا نام علی رکھنا پھر چند روز بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حکم فرمایا کہ اس بچہ کا نام احمد رکھو تو آپکا نام علی احمد رکھا گیا آپ بچپن سے ہی پرہیزگاری کا عملی نمونہ تھے ایک بار کا واقعہ ہے کہ حضور صابر پیا کے خلیفہ حضرت شمس الدین رضی اللہ عنہ نے آپ سے سوال کیا کہ فنا اور بقا کا کیا راز ہے؟تو صابر پیا نے فرمایا کہ کسی اور موقع پر ظاہر کر دیا جائیگا ایک مدت گزر گئی اور خواجہ صاحب کے ذہن سے یہ سوال تک نکل گیا جب حضرت صابر پیا کا وصال ہو گیا اور قبر شریف کی چشمہ بندی میں لوگ مصروف تھے تو خواجہ صاحب نے سوچا کہ امام صاحب سے ملاقات کرکے انکا نام و نشان معلوم کر لینا چاہئے ورنہ یہ بات پردہُ راز میں ہی رہ جائیگی کہ نماز جنازہ کس نے ادا کرائی امام صاحب جو کہ گھوڑے پر سوار ہوکر جانب مغرب چل دئے خواجہ صاحب نے داڑ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا حضرت اپنا نام و نشان تو بتا دیجئے یہ سن کر امام صاحب نے اپنے چہرہُ سے نقاب ہٹایا اور فرمایا کہ فقیر کا جنازہ فقیر نے خود پڑھایا ہے صابر پاک چہرہُ انور دیکھتے ہی خواجہ صاحب حیرت میں پڑ گئے تو صابر پیا نے قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا حیرت کی کوئی بات نہیں ایک بار تم نے مجھسے پوچھا تھا کہ فنا اور بقا کیا ہے تو جان لو جو ادھر دیکھ رہے ہو وہ فنا ہے اور جو ادھر دیکھ رہے ہو وہ بقا ہے خدا کے فضل سے آج یہ مسلہُ بھی تم کو بتا کر نہیں دکھا کر سمجھا دیا مجھ پر یہی ایک وعدہ باقی تھا جسے اللہ کے فضل سے آج میں نے پورا کیا یہ سنتے ہی خواجہ صاحب بیہوش ہوکر گر پڑے اور امام صاحب جس راہ سے آئے تھے اسی جانب روانہ ہو گئے حضرت صابر پیا کی والدہ کے بہت اسرار کرنے پر آپکا نکاح حضرت باب فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سے ہو گیا رات ہوئی تو والدہ نے دلہن کو اندر بھیجا اس وقت آپ مراقبہ میں مشغول تھے بیوی ادب کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی جب آپ نے مراقبہ سے سر اٹھایا تو سامنے عورت کو دیکھا فرمایا تم کون ہو اور یہاں کیوں کھڑی ہو؟ جواب ملا میں آپکی بیوی ہوں خدمت گزاری کیلئے حاضر ہوئی ہوں صابر پیا نے فرمایا خدا وحدہُ لا شریک ہے اسکی کوئی بیوی نہیں میں اسکا بندا ہوں اور اسکے جمال میں گم ہوں یہ فرماکر آپ پھر مراقبہ میں مشغول ہو گئے آپکے ان الفاظ پر جہاں آپ تھے وہاں جلال انوارات الٰہی کا نزول ہوا جنھیں آپکی بیوی بردوشت نہ کر سکی بیہوش ہوکر گری اور کچھ ہی لمحوں میں اللہ کو پیاری ہو گئی ادھر والدہ کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہو رہے تھے وہ صابر پیا کی حالت جزب سے اچھی طرح باخبر تھیں احتیاط کے طور پر جب کافی رات گزرنے پر انھوں نے دروازہ کھلوایا تو دیکھا کہ بہو انتقال کر چکی ہے تو صابر پیا مراقبہ میں ڈوبے ہیں انھیں غصہ آ گیا اور صابر پیا کی پشت پر زور سے ہاتھ مارکر فرمایا کہ یہ تمہارے ماموں کی بیٹی تھی اور میں نے اس سے تمہاری شادی کی تھی لیکن یہ انتقال کر گئی بولو اب میں اپنے بھائی کو کیا جواب دونگی؟صابر پیا نے فرمایا اماں اسمیں میرا کیا قصور ہے جو مولیٰ کی رضا تھی وہ ہو گیا ایک بار حضرت صابر پاک کی والدہ نے آپکو اپنے بھائی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ کی دیکھ بھال میں بھیج دیا ماموں جان نے فرمایا بیٹا ہمارے یہاں مخلوق خدا اپنا پیٹ بھرتی ہے لھٰذا جاؤ انھیں کھلانے کا کام کرو آپ نے 12 سال تک کھانا کھلاتے رہے لیکن ایک لقمہ بھی تناول نہ فرمایا بلکہ گھاس اور درخت کی پتیوں سے پیٹ بھر لیا کرتے تھے جب آپکے ماموں نے آپکو اتنا کمزور ہوتا ہوا دیکھا تو وجہ پوچھا تو آپنے کہا کی جب سے آپنے ہمیں اس کام میں لگایا ہے تب سے ہم نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا ماموں جان نے فرمایا بیٹا جب سب لوگ یہاں کھاتے ہیں تو تم نے کیوں نہیں کھایا؟ تو آپنے جواب دیا کی آپنے کھانا کھلانے کو کہا تھا کھانے کو نہیں ہم آپکے حکم کو کیسے فراموش کر سکتے تھے یہ بات سن کر ماموں جان نے آپکو سینے سے لگایا اور فرمایا بیٹا واقعی میں تم صابر ہو جب سے آپکا لقب صابر ہو گیا آپکا وصال 13 ربیع الاول 690 ہجری میں کلیر شریف (روڑکی اتراکھنڈ) میں ہوا آپکے آستانہ میں بڑی تعداد میں عقیدتمند حاضر ہوکر آپکا فیضان حاصل کرتے ہیں اس موقع پر حضرت صابر پاک کا  قل شریف ہوا اور ملک میں امن و امان قائم رہنے کی دعا حافظ سید محمد فیصل جعفری نے کی پھر حاضرین میں شیرنی تقسیم ہوئی شرکاء میں اقبال میر کاں صابری،قاری عادل ازہری،ضمیر خاں،محمد طارق،محمد معین جعفری وغیرہ لوگ موجود تھے!