معروف نقاد، شاعر اور دانشور عشرت ظفر کے انتقال سے پوری دنیا میں زبر دست سوگ کا ماحول چھا گیا۔ ہمایوں باغ واقع لٹریرینس کے دفتر میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔تعزیتی نشست کی صدارت کرتے ہوئے ادیب وشاعر ڈاکٹر زین الدین حیدر نے کہا کہ عشرت ظفر عہد حاضر کے ایک بڑے نقاد اور معتبر شاعر تھے۔انھوں نے ہر سطح پر اپنے فن اور اسلوب سے اردو زبان وادب کو ایک نئی سمت عطاکی۔انھوں نے ان کی موت کو اردو زبان وادب کے لئے ایک بڑا خسارہ قرار دیا۔
قائد حسین کوثر نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہو ئے کہا کہ عشرت ظفر کے انتقال کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے باپ کو کھو دیا ہے، وہ بیک وقت میرے استاد، باپ اور دوست تھے۔انھوں نے ان کی موت کو ناقابل تلا فی نقصان بتایا۔
صدیق فیض عام انٹر کالج کے اردو کے لکچرر اظہر صدیقی کےعشرت ظفر کو خراج تحسین پیش کرتے ہو ئے کہا کہ استاد کا اپنا منفرد اسلوب ہے، جسے قاری پڑھ کر آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ عشرت ظفر کی زبان ہے۔ان کا معیار اتنا بڑھ چکا تھا کہ وہ اپنی بات تحریر کرنے میں کوئی سمجھو تہ نہیں کرتے تھے۔انھوں نے چند اشعار پڑھ کر عشرت صاحب کو یاد کیا۔
آخر فصیل خاک کو میں نے کیا عبور/اک جست میں تمام ہوئی چپقلش تمام
مٹّی میرے کام آئی، میں مٹی کے/ اس نے پالا، میں اس کی خوراک ہوا(عشرت ظفر)
اس موقع پر جر جیس رضا، مسرور احمد، شفیق اللٰہ غازی، ڈاکٹر ظفر اکبرآبادی، انعام الرحمٰن رفیقی، پرویز احمد، وصی اللٰہ، امان اللٰہ وغیرہ نے اظہار تعزیت کیا۔