سرسید نے جو شمع ہمارے حوالے کی تھی اسے ہمیں لےکر آگے بڑھنا چاہئے- فرینک اسلام


سرسید کے کام اور اقوال ہر دور کے لئے موزوں رہے  ہیں۔ اس تفرقہ انگیز حالات میں جب کہ ہندوستان اور پوری دنیا میں ہر طرف مسائل  اور پریشانی ہے ، ا یسے پرآشوب دور میں بھی یہ اقوال نئے معانی و مفہوم کا جامہ پہن کر ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔


سرسید کے پاس ایک تکثیری معاشرے میں نہ صرف بقائے باہمی کا وژن تھا بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی سوچ بھی ملتی ہے۔ یہ کتنی مشفقانہ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی سوچ ہے۔


سرسید کے پاس ایسا نظریہ یا دوراندیشی کیوں کر تھی؟ایسا جزوی طور پر اس لئے تھا کیوں کہ انہوں نے دنیا اور اس کے اندر بسنے والوں کو جس طور پر دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کی خود ہی وضاحت کی ہے۔


اپنی مشہور تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ " میں ہندو اور مسلمان دونوں کو اپنی دو آنکھیں تصور کرتا ہوں۔" بعدمیں انہوں نے یہ بھی کہا"ایسا کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے کہ میری ایک ہی آنکھ ہو؟"۔ انہوں نے اس جملہ کااستعمال اس لیے کیا کیوں کہ وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ گرچہ وہ ایک متقی مسلمان ہیں لیکن وہ ہندو مسلمان دونوں سے یکساں پیارکرتے ہیں۔


ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تکثیری سماج کی بقا کے لئے سرسید اس طرح کے خیال یا وژن میں تنہا نہیں تھے۔ بنارس ہندویونیورسٹی کے بانی پنڈت مالویہ نے بھی ہمیں اسی طرح کی بات بتائی ہے۔ ان کے بقول"ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا بھی ملک ہے۔ ملک اسی وقت مضبوط رہ سکتا ہے اور ترقی کرسکتا ہے جب ہندوستان کے سارے لوگ آپس میں خیر سگالی اور ہم آہنگی کے ساتھ رہیں۔"


ان کا مایہ ماننا تھا کہ مذہب اپنے جیسے انسانوں کی غم خواری کا نام ہے۔


مذہبی تنوع کی فراوانی  کو اپنانے اور ا س کا جشن منانے  کو دونوں بزرگوں سرسید اور پنڈت مالویہ  یکساں مشن کے طور پر اختیار کیا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ  تنوع ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ جمہوریت کو مضبوط بنانے میں تکثیریت  اور تنوع کا اہم کردار ہے۔ تنوع ہمیں ایک دوسرے سے قریب لاتا ہے۔ اور ہم ایک ساتھ ہوکر ایک بہتر اور مضبوط  ہندوستان کی تعمری کرسکتے ہیں۔


یقینا سرسید اور پنڈت مالویہ میں کوئی مذہبی مماثلت نہیں تھی لیکن یقینی طور پر ان میں روحانی رشتہ ضرور تھا۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ روحانی طور پر ایک تھے اور ان میں  یکساں روحانیت پائی جاتی تھی۔


اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہم اس وقت ایک تفرقہ انگیز اور خودغرضی والے دور میں جی رہے ہیں جہاں مذہبی نیشنلزم کی وجہ سے پوری دنیا مشکل دور سے گزررہی ہے، ایسےمشورے اور وژن ہمیں ایک دوسرے کے ساتھمل کر تنازعہ کے بجائے تعلیم اورافہام وتفہیم کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے خیالات اور مشورے ہمیں ایک ساتھ چلنے کی بنیادفراہم کرتے ہیں تاکہ ہم مختلف تہذیبوں ، ملتوں اور مذاہب کے درمیان انسانیت کے نام پر اتحاد قائم کرسکیں۔ہم ایسا صرف آسمان کی طرف اور اس خدا کی طرف دیکھ کر نہیں کرسکتے ہیں جس کی ہم عبادت کرتے ہیں بلکہ اس کے لئے ہمیں اس کے لئے زمین پر اترنا ہوگا اور لوگوں اور اس خاندان کو سامنے رکھنا ہوگا جس کا ہم ایک حصہ ہیں۔


سرسید نے کہا تھا کہ پرامن بقائے باہمی، اشتراک اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو حاصل کرنے کے دو اہم ستون ہیں۔ ایک تعلیم اور دوسرے مشترکہ تعلیمی تجربات۔


اس وقت جب کہ تعلیم کی اہمیت  کے حق اور مخالفت میں بہت سارے لیڈر بشمول نیشنل کانگریس  کے مسلم لیڈر بات کررہے تھےسرسید نے کہا"میں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو سوچتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں بحث ومباحثہ ہماری قومی ترقی میں مددگار ہے۔ میں قومی ترقی میں صرف تعلیم کو ہی واحد ذریعہ سمجھتا ہوں"۔


سرسید نے اینگلو اورینٹل کالج جو کہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا قائم کرکے اپنے الفاظ کو عمل کا جامہ پہنایا۔


گرچہ اس کا فوکس مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں دلچسپی اور اہلیت  پیدا کرنا تھا لیکن سرسید نے اس کے قیام کے روز اول سے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ کسی مذہب کی جاگیر نہ بننے پائے۔


کالج کے شروعاتی دور میں سرسید نے اس بات پر زور دیا۔ ان کے بقول " جی ہاں، اس کالج کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں جدید تعلیم کی ترویج ہے جس کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ مسائل سےدوچار ہیں لیکن یہ ادارہ  ہندومسلم سب کے لئے ہے۔ دونوں کو تعلیم کی ضرورت ہے۔"


سرسید کے وژن کو دوسرے لوگوں نے اپنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اینگلو اورینٹل کالج کے ابتدائی سالوں میں زیادہ ترمالدار  ہندوؤں نے اس کالج کی مدد کی۔ یہ ایک عظیم سرمایہ تھا اور اس کی بدولت اے ایم یو وجود میں آیا۔


سرسید نے ایے ایم یو کی بنیاد اس لئے رکھی تاکہ اس کے فارغ التحصیل لوگوں کو جسے میں بامقصد تعلیم کہتا ہوں دے سکیں۔ علی گڑھ کے قیام کے وقت سرسید نے کہا:


"یقینا یہ کالج ایک یونیورسٹی بنے گا جس کے بچے (میں یہاں بچیوں کو بھی شامل کرنا چاہوں گا) پوری دنیا میں جائیں گے اور آزادتجسس ، رواداری اورخالص اخلاقیات کا درس دیں گے۔"


یقینا کالج یونیورسٹی بنا ، ایک عظیم یونیورسٹی یعنی اے ایم یو۔ اب اے ایم یو زراعت، میڈیسن ، سائنس اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں 250سے زیادہ کورسز چلا رہاہےجہاں پورےملک اور مختلف ممالک سے طلبہ کسب علم کے لئے آتے ہیں۔


اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے جیسا کہ سرسید نے پیشین گوئی کی تھی ، لاکھوں علیگ لوگوں نے اس وعدے کو سچا کردکھایا۔ وہ ہندوستان اور دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے تاکہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئے۔


اس دوران یہاں سے فارغ التحصیل مردوں اور عورتوں نے زندگی کے مختلف میدانوں میں بحیثیت ماہر تعلیم، سیاست داں، شاعر، سائنس داں اور انجینئر کے طور پر اپنا گراں قدر تعاون پیش کیا ہے۔ گرچہ ان کے راستے جد ا تھے لیکن مساوی انصاف اور انسانیت کی قدر مشترک کے تئیں ان کے عزم وحوصلہ  نے ان کو ایک لڑی میں پرودیا ہے۔تکنیکی مہارت اور اخلاقی عظمت  نے ان علی گڑھ کے ان فارغ التحصیل لوگوں کو اس لائق بنادیا ہے کہ وہ ملک اور بیرون ملک میں دوسرے لوگوں کے لئے  ایک مثبت رول ماڈل کے طور پر کام کرسکیں۔


اس وقت دنیا کےمختلف 100 ممالک میں کل 20ہزار علیگ لوگ موجود ہیں اور میں ان میں سے ایک ہوں۔


میرے خیال میں سرسید کو حقیقی خراج عقیدت ایک  حساس اور قابل ادراک تعلیم جو ہم نے علی گڑھ سے حاصل کی ہے کے ذریعہ ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہم تمام سرسید کے تعلیمی اقدامات سے مالامال ہوئے ہیں اور ہمیں اس سے لیاقت اور طاقت ملی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دوسروں کی بھی اسی طر ح تعلیم  کے مواقع پیدا کرکے مستفید کریں جس طرح ہم نے اے ایم یو سے استفادہ کیا ہے۔ 


اے ایم یو کے فارغین نے کافی کام کیا ہے لیکن سرسید کے وژن کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا سفر ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ میں نے سرسید کی محبانہ اور تعلیمی وراثت کا ذکر کیا اور اب اپنی تقریر کے آخری حصہ میں ان کی روشنی کی وراثت کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔


اپنی عمر کے آخری ایام میں سرسید جن کی  آنکھوں کی روشنی چلی گئی تھی، نے کہا تھا:


"میری بصارت ختم ہوگئی ہے لیکن بصیرت ابھی زندہ ہے۔ میری بصیرت پر کبھی دھندنہیں چھائی اور میرے عزم نے کبھی شکست نہیں کھائی۔میں نے اس ادارے کی تعمیر آپ کے لئے کی ہے اور مجھے یقین ہے آپ اس ادارے کی مشعل کو آگے بڑھائیں تاآں کہ دنیا سے اندھیرے نابود ہوجائیں۔"


دنیا میں اور ہمارے ملک میں ابھی بھی اندھیروں کا وجود باقی ہے۔ اسی لئے ہم علیگ لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس ادارے کی مشعل کو آگے بڑھائیں اوراس کی لو کو تیز کرنے کے لئے نئے سرے سے دوگنی کوششوں کا آغاز کریں۔


ہندوستان میں بہت ساری کوششیں پائے تکمیل تک پہنچی ہیں۔


ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ --- 


ہندوستانی معیشت اس وقت دنیا کی سب سے تیز بڑھتی ہوئی معیشت ہے۔ --- 


ہندوستان بحیثیت ایک علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہاہے۔ --- 


لیکن ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ اور یہ بات اقلیتوں اور عورتوں کے تعلق سے زیادہ صحیح ہے۔


ہم لوگوں کا جو تعلق ہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہم علیگ برادری کا حصہ ہیں۔ہم علیگ لوگ سرسید کے وارث ہیں۔ اس لئے کہ ہمارے پاس ایک تاریخ ، ایک ورثہ اور فرض ہے کہ ہمیں تبدیلی کا نقیب بننا ہے اور اندھیروں کو ختم کرنا ہے۔


سرسید کے پرامن بقائے باہمی، شراکت , فرقہ وارانہ ہم آہنگی  اور ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے وژن کے تحت کام کرنے کے لئے ہندوستان میں فضا ہموار ہے۔تبدیلی کے لئے ایک دوسرے کو ساتھ کے لئےہم سب کے پاس ایک خاص موقع اور ذمہ داری ہے ہے۔  ایک انسان ہونے کی حیثیت سے اب یہ ہم پر منحصر کہ ہم اس سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔


 انہوں نے کہا:


"سارے انسان ہمارے بھائی اور بہن ہیں۔ ان کے لئے کام کرنا مسلمانوں پر لازم ہے۔ " لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم سرسید کی محبت، تعلیم اور روشنی کی وراثت کو یاد رکھیں اور اس کو آگے بڑھائیں۔


سرسید نے جو شمع ہمارے حوالے کی تھی اسے ہمیں لےکر آگے بڑھنا چاہئے۔آپ اس سفر میں میرا ساتھ دیجئے اور ساتھ مل کر کام کیجئےتاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سرسید کا مقصد حاصل کی جاسکتے اور ان کے خواب مر نہ جائیں۔