داستاں ختم ہوٸی رات ابھی باقی یے


بھو پال أج بتاریخ 17 اکتوبر کو ۔منشی حسین خاں ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ کے نسیم انصاری ہال میں کانپور کے معروف صحافی ،ادیب اور شاعر عشت ظفر کے سانحہ ارتحال ہر ایک تعزیتی جلسہ ہوا جس میں مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوٸے ان کی مغفرت کے لٸے دعا کی گٸی واضع رہے کہ عشرت ظفر کا کل 16 اکتوبر کو لکھیم پور کھیری یوپی میں جہاں وہ اپنے عزیزوں سے ملنے گٸے ہوۓٸے تھے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا تھا اور أج کانپور میں ان کی تدفین ہوٸی۔ اس موقع پر ضیا فاروقی نے جہاں مرحوم کے ساتھ کانپور میں گزارے ہوٸے دنوں اور ان کے بے پناہ خلوص کو یاد کیا وہیں ان کی شعری ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوٸے کہا کہ عشرت ظفر کی پیداٸش 16 اپریل 1944 کو ضلع بارابنکی کے ایک قصبہ میں ہوٸی تھی لیکن وہ اواٸل عمری میں ہی کانپور أگٸے تھے وہ یہاں ایک طویل عرصہ تک روزنامہ انوار قوم اور ماہنامہ خرام کے اڈیٹر رہے ۔اردو فارسی شعرو ادب پر ان کا مطالعہ وسیع تھا فکشن ۔تنقید اور شاعری ہر میدان میں انھوں نے اپنے نقوش ثبت کٸے ہیں ۔ انھوں نے ” أخری درویش “ اور ”شہر سوختہ “ نام سے دو ناول لکھےجو جدیدیت کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان کے شعری مجمموعوں میں میں نوشتہ ، ہفت پرکار ، سفال ، اور پیچاک وغیرہ بہت مشہور ہوٸے ۔ تنقید وتحقیق کے حوالے سے تقریباً بیس کتابیں ان کی منظر عام پر أٸی ہیں جیسے احتساب ، خدوخال ، حرف باریاب ،أفرینش ، نمود غبار ، نقش امروز وغیرہ ۔ادھر انھوں نے اپنی سوانح عمری ” از کف خاکسترم“ کے نام سے تحریر کی تھی جو غالباً ابھی پریس میں ہے ضیا فاروقی نے بہت جزباتی انداز میں میں ان کو یاد کرتے ہوٸے کہا کہ عشرت بھاٸی ہمیشہ نٸے لکھنے والوں کی حوصلہ افزاٸی ہی نہیں بلکہ اپنا بھر پور تعاون بھی دیتے تھے ان کے انتقال سے کانپور کے ادبی منظر نامے میں جو خلإ پیدا ہوا ہے اس کا اندازہ ننہیں لگایا جا سکتا ہے
اس تعزیتی جلسے میں مسلم دیلفیر سوسایٹی کےسکریٹری اور معروف ادیب اقبال مسعود نے عشرت ظفر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوٸے کہا کہ ان کی شاعری ہو یا مضامین ہمیشہ حاصل مطالعہ ہوتی ہیں خصوصاً شعریات کی تنقید میں تقابلی مطالعہ ان کا زبردست تھا ، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے سابق پرنسپل اور معروف نقاد اور شاعر پروفیسر مختار شمیم نے کہا کہ عشرت ظفر انتہاٸی باوقار اور سنجیدہ ادبی شخصیت تھے ۔ وہ کسی اختلافی ادبی مسٸلے پر بھی دلاٸل کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور ایسے مواقع پر وہ مقابل کی بناٸی ہوٸی لکیر کو مٹانے کے بجاٸے اس سے بڑی لکیر بنا کر اپنی بات کو پیش کرتے تھے اسی لٸے ان کی تحریریں اہل علم وادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔
اس موقع پر مشہور شاعر ڈاکٹر انجم بارابنکوی نے عشرت ظفر سے اپنے دیرینہ مراسم کا ذکر کرتے ہوٸے کہا کہ وہ ہمیشہ بہت والہانہ انداز سے ملتے تھے وہ جب خرام کے اڈیٹر تھے تو میرے کلام کو مجھ سے منگو کر شاٸع کرتے تھے ان کے برصغیر کے تقریباً سبھی بڑے ادیبوں اور شاعروں سے باوقار مراسم تھے وہ طویل عرصہ تک ماہنامہ خرام اور روزنامہ انوار قوم کے اڈیٹر رہے مگر کبھی کسی انعام اکرام کی تمنا نہیں کی اور ہمیشہ ظاہری نام و نمود سے دور رہے اور خاموشی سے اردو کے چمنستان میں الفاظ و معانی کی خوشبو بکھیرتے رہے ۔جلسے میں بزم سحر کے سکرٹری اور معروف شاعر سراج محمد خاں سراج نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوٸے اپنی ذاتی ملاقاتوں کا ذکر کیا
.أخر میں مرحوم کی مغفرت کے لٸے دعا کی گٸی