حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ علم, عبادت, ذہد و تقویٰ میں بے نظیر تھے:حافظ فیصل جعفری





 کانپور 29 ستمبر:اللہ کے مقدس ولی حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمة اللہ علیہ 

کا نام سید اشرف۔

لقب جہانگیر، شاہِ سمنان۔

آپ کے والد سلطان ابراہیم سمنان کے بادشاہ تھے۔

آپ کی والدہ ماجدہ کا نام خدیجہ بیگم تھا۔ آپ سمنان کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپکی ولادت باسعادت 688 ہجری میں ہوئی ولادت کی پیشین گوئی آپ کی ولادت سے قبل حضرت خواجہ احمد یسوی کی روح پاک نے آپ کی والدہ ماجدہ کو مطلع کیا تھا کہ آپ  کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوگا، جو اپنے نور ولایت سے دنیا کو روشن کرے گا ان خیالات کا اظہار تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری نے حضرت کے عرس مبارک کے موقع پر کیا انھوں نے مزید فرمایا کہ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والد ماجد کے سایہ عاطفت میں ہوئی۔ آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیا اور ساتھ ہی ساتھ قرأت بھی سیکھی۔ پھر علوم ظاہری کی طرف توجہ فرمائی۔ چودہ سال کی عمر میں تحصیل علوم ظاہری سےفراغت پائی ابھی آپ علوم ظاہری سےفارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کے والد ماجد نے داعی اجل کو لبیک کہا تخت نشینی والد کے انتقال کے بعد آپ تخت پر بیٹھے اور حکومت سنبھالی آپ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے۔

انہوں نے آپ کو ذکر اویسیہ  تعلیم فرمایا۔ ایک دن حضرت خضر علیہ السلام نے تشریف لاکر آپ سےفرمایا کہ "اگر خدا کی طلب ہے تو دنیا کو چھوڑو، ہندوستان جاؤ اور شیخ علاؤالدین بنگالی سے اپنا حصہ لیں حضرت خضر علیہ السلام کی نصیحت آپ کی زندگی میں کایا پلٹ کا باعث ہوئی۔ آپ تاج و تخت سے دست بردار ہوئے۔ حکومت سلطان محمود کے سپرد فرمائی اور اپنی والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر ہندوستان روانہ ہوئے۔ تنظیم کے ناظم نشرواشاعت مولانا محمد حسان قادری نے خراج پیش کرتے ہوئے کہا کہ

ہندوستان میں اوچ پہنچ کر حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے روحانی فیوض وبرکات سے مستفید و مستفیض ہوئے، پھر دہلی سے بنگال روانہ ہوئے۔ 

بیعت وخلافت حضرت شیخ علاؤالدین بنگالی نے آپ کا شان دار استقبال کیا۔ آپ کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ اپنے حلقہ ارادت میں آپ کو داخل کیا۔ اور جہاں گیر کے لقب سے آپ کو ممتاز کیا اور خرقہ خلافت سے سرفراز کیا سیرت مبارک آپ جامع علوم ظاہری و باطنی تھے۔ آپ نے چار خانوادوں سے فیض حاصل کیا۔آپ علم، عبادت، مجاہدہ، زہد وتقویٰ، حلم، جود وسخا، تحمل اور بردباری میں بے نظیر تھے۔ آپ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔ 

آپ فرماتےہیں جب سالک عقائد و اصطلاح صوفیہ سے واقف ہوگیا تو اس کے لئے ضروری ہےکہ زیادہ وقت محفل توحید میں صرف کرے اور مثل بگلے کے بیٹھا رہے آپ سے پوچھا گیا کہ بگلے کی طرح بیٹھنے سے کیا مطلب ہے۔

آپ نے جواب دیا۔ بغیر تلاش کے پانا، بغیر دیکھے ہوئے دیدار ہو جانا ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نوافل پڑھنا خدمت خلق سے بہتر ہے ان کا یہ خیال غلط ہے۔کیوں کہ خدمت کا جو اثر قلب پر پڑتا ہے، وہ ظاہر ہے۔

دونوں کے نتیجے پر نظر کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے، کہ خدمت خلق نوافل پڑھنے سے بہتر ہے آپ نے27 محرم 808 ہجری کو اس جہان فانی سے سفر دار آخرت فرمایا۔ آپ کا مزار پر انوار درگاہ رسول پور امبیڈکر نگر کچھوچھہ شریف یوپی میں مرجع خاص وعام ہے جہاں پر کافی تعداد میں آپ کے عقیدتمند حاضر ہوکر فیضیاب ہوتے ہیں!