اردو قصائد میں ہندوستانی ثقافت کی شاندار عکاسی ملتی ہے: پروفیسر شیخ عقیل احمد

قومی اردو کونسل میں ‘اردو قصائد کی ادبی اور ثقافتی روایت’ پرمذاکرہ 

نئی دہلی: اردو کی شعری اصناف میں قصیدے کو مرکزیت حاصل رہی ہے۔ دکن اور شمالی ہندوستان میں ہمیں سیکڑوں ایسے اردو قصیدہ نگارنظرآتے ہیں جنھوں نے نہ صرف اس صنف کو وسعت دی بلکہ اردو کے شعری ادب کو بھی بلندیوں تک پہنچایا اور اپنے قصائد میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کی شاندار عکاسی بھی کی۔ ان خیالات کا اظہار قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے قومی اردوکونسل کے زیر اہتمام منعقدہ ورچوئل مذاکرہ بعنوان ‘اردو قصائد کی ادبی اور ثقافتی روایت’ میں کیا۔ انھوں نے کہاکہ قصیدہ اردو کی بہت اہم صنف ہے جس میں ہر طرح کے موضوعات اور مضامین کو برتنے کی بھرپورگنجائش موجود ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ہر شاعر قصیدے کے میدان میں طبع آزمائی کرنے میں فخر محسوس کرتا تھا، آج بھلے ہی قصیدہ اپنی شان وشکوت کھوچکا ہے، تاہم اس کی کوکھ سے جنم لینے والی غزل کادبدبہ اب بھی قائم ہے ۔

پروفیسر عبدالحق نے شمالی ہندوستان میں قصیدے کی روایت کے حوالے سے کہاکہ شمالی ہندمیں قصیدے کی روایت کو آگے بڑھانے میں ولی کا اہم کردار ہے۔انھوں نے بہترین قصیدے کہے ۔ولی کے بعد سودانے اردو قصیدے کو آسمان پر پہنچادیا۔ اردو میں سودا سے بڑا کوئی قصیدہ نگار پیدا نہ ہوسکا۔ انھوں نے قصیدے میں ہندوستانی تہذیب وثقافت پر گفتگوکرتے ہوئے اردو قصیدے کے ثقافتی مطالعہ پر خصوصی توجہ دلائی۔اس موقع پر پروفیسر عتیق اللہ نے قصیدے کے مختلف پہلوؤں پرتحقیقی اور تنقیدی بحث کی۔انھوں نے کہا کہ قصیدے کو ‘ا م الاصناف’ کی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ قصیدے کے اسالیب ہمیں دوسری اصناف میں بھی نظر آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ آج ہمیں قصیدے کے کینن کے حوالے سے غور وفکر کرنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 پروفیسر نسیم الدین فریس نے اپنے خطاب میں دکن میں اردو قصیدے کی روایت کا جائزہ لیا۔انھوں نے کہا کہ اردو کی زیادہ تر اصناف کا آغاز دکن میں ہواہے۔ جہاں تک اردو قصیدے کی بات ہے تو اس صنف کی ابتداءبہمنی دور میں ہوئی ، اس کے بعد عادل شاہی اور قطب شاہی دورمیں کئی اہم شاعر قصیدے کی طرف متوجہ ہوئے اور عمدہ قصیدے کہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اردو کے شعرا کے پیش نظر فارسی کے قصائد رہے ہیں۔ پروفیسر نسیم الدین فریس نے قصیدے کے زوال پر بھی روشنی ڈالی، اور انھوں نے قصیدے کے احیا کے حوالے سے کہا کہ قصیدہ آج بھی کہاجاسکتا ہے کیونکہ آج بھی موضوعات کی کمی نہیں ہے۔ پروفیسر نسیم احمد نے سودا کی قصیدہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ سودا نہ ہوتے تو شاید اردومیں قصیدے کا ذکر بے سود ہوجاتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ درباروں کا خاتمہ قصیدے کے زوال کا سبب نہیں ہے۔کیونکہ اردو کے بہترین قصیدے نعتیہ اور منقبتی ہیں اور ان موضوعات پر آج بھی قصیدے کہے جاسکتے ہیں۔ پروگرام کے آخر میں شمع کوثر یزدانی نے تمام مہمانان اور شرکاء کا شکریہ اداکیا۔

(رابطہ عامہ سیل)