حقوق کے مطالبہ کا سر چشمہ قرآن پاک ہے: مولانا شاہ افضال الرحمن قاسمی

مسجد محمودیہ اجیت گنج میں مفتی عبد الرشید قاسمی اور مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی کی موجودگی میں تقریب دستاربندی کا انعقاد


کانپور:۔
مسجد محمودیہ اجیت گنج بابوپوروہ میں لاک ڈاؤن کے ڈیڑھ سال کے عرصہ میں قرآن مجید کو حفظ کرکے اپنے سینے میں محفوظ کرنے والے محمد طلحہ ابن صاحب عالم کی دستاربندی جمعیۃ علماء شہر کانپور کے جنرل سکریٹری مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی، حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے چیئرمین مفتی عبد الرشید قاسمی، جمعیۃ علماء کانپور کے نائب صدر مولانا محمد انیس خاں قاسمی، قاضی شریعت مولانا محمد انعام اللہ قاسمی کی پروقارموجودگی میں مہمان خصوصی حضرت مولانا شاہ افضال الرحمن صاحب قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی کے دست مبارک سے عمل میں آئی۔
دستاربندی کے موقع پر خطاب فرماتے ہوئے مہمان خصوصی مولانا شاہ افضال الرحمن قاسمی نے کہا کہ آج ہم اور آپ جس دور سے گز ررہے ہیں، اس کی بہت سی خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہے، ہر کسی کو کسی نہ کسی سے شکایت بھی ہے کہ کوئی نہ کوئی میری حق تلفی کر رہا ہے۔ جہاں تک حقوق کی بات ہے تو حق کس کو کہتے، کس کا کیا حق ہے اور حق کی ادائیگی کیا چیز ہوتی ہے اس کی سب سے پہلی آواز اگر کسی نے لگائی ہے تو وہ قرآن پاک نے لگائی ہے، قرآن مجید نے بتایا کہ حق کیا چیز ہوتی ہے، بڑوں، چھوٹوں، حاکم، محکوم، بیوی، خاوند،پڑوسی، رشتے داروں کا حق قرآن مجید نے بتایا ہے۔ مولانا نے کہا کہ قرآن مجید کا پیغام اور پہلی وحی جس وقت آئی ہے، اس وقت دنیا کا جو ماحول تھا وہ ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا تھا۔ قرآن نے آکر ہر ایک کے ساتھ عادلانہ معاملہ کرنے کیلئے بنیادی طور پر ہر ایک کے حقوق مقرر و متعین کئے کہ یہ حقوق ہیں اس کی بنیاد کے اوپر اگر دنیا کا نظام چلایا جائے گاتو انشاء اللہ دنیا امن وامان کے ساتھ رہے گی، کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں رہے گی۔ حقوق کے مطالبہ کا سر چشمہ قرآن پاک ہے۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ جس قرآن نے پورے عالم انسانیت کے حقوق کی بات کی ہے،تو کیا اس قرآن کا بھی کوئی حق اورتقاضہ ہے یا نہیں؟ اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر انسانو ں کی حق تلفی ہوگی تو قیامت کے دن ایک انسان کی دوسرے انسان سے حق کیلئے اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرے گا، لیکن اگر قرآن مجید کے ساتھ ایمان والوں کی طرف سے حق تلفی ہوگی تو خود یہ قرآن کھڑے ہو کرکے اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ دائرکرے گا کہ میرے مولیٰ میں نے حقوق کا پیغام دیا تھا لیکن میرے ماننے والوں نے میری حق تلفی کی۔ اور غیر ایمان والوں نے حق تلفی کی ہے تو میرے آقا حضرت محمدﷺ کھڑے ہو کر کے اللہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے کہ انہوں نے قرآن پاک کی حق تلفی کی ہے۔ مولانا نے بتایا کہ اگر ہم اور آپ قرآن مجید کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ کریں گے تو سمجھ لیں کہ اللہ کا نظام بہت عجیب ہے، اس نظام اور اس کی حکمت کو ہم سمجھ بھی نہیں سکے۔ اس لئے اپنے حقوق کو طلب کرنے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم علماء اور مفتیان کرام سے رابطہ کرکے قرآن مجید کے ساتھ جو معاملہ ہے، اس کے جو حقوق ہیں، ان حقوق کو معلوم کریں اور اس کے ادا کرنے کی ہم فکریں کریں۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ تم دوسروں کے حق ادا کروں، تمہاری فکر اور یہ کوشش ہو کہ تمہارے ذمے کسی کا حق، مطالبہ اور تقاضہ نہ رہے، اگر ایسا ہوگا تو اللہ پاک غیبی طور سے یہ انتظام فرمائیں گے کہ تمہارے حقوق کی ادائیگی ہو جائے گی۔آج ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم کو اپنے حق کی بھرپور فکر ہے لیکن کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ہم پر بھی دوسروں کے جو حقوق اور مطالبات ہیں اس کو بھی ہم پورے کر رہے ہیں یا نہیں، اس کو ہم ضائع تو نہیں کر رہے ہیں، کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو رہی ہے۔ اس لئے جب دوسروں کی حق تلفی ہوگی تو پھر ہمارا حق ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اللہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ ہوتا ہے، ظالم کے ساتھ نہیں ہوتا، یہ اللہ کا قانون ہے۔ اگر ہم نے قرآن مجید، حدیث پاک، دین و شریعت کے ساتھ اس کے حقوق کا لحاظ نہیں کیا، اس کے حق کو ادا نہیں کیا،اس کے تقاضوں کو ضائع کیا تو یاد رکھئے کہ ہم لاکھ تدبیریں کر لیں کہ ہمارے حقوق ہم کو مل جائیں تو قرب قیامت تک ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس سے قبل جلسہ کا آغا زحافظ محمد مزمل نے تلاوت قرآن پاک سے کیا۔ حافظ احمد حمزہ نے نعت و منقبت کا نذرانہ پیش کیا۔ اس موقع پر تکمیل حفظ کرنے والے حافظ محمد طلحہ اور ان کے استاذ حافظ محمد انس کو لوگوں نے تحائف اور انعامات دے کر اعزاز سے نوازتے ہوئے حوصلہ افزائی کی۔ نظامت کے فرائض مسجد ہذا کے امام وخطیب مولانا انصار احمد جامعی نے انجام دئے۔ مہمان خصوصی مولانا شاہ افضال الرحمن قاسمی کی دعاء پر جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ جلسہ میں مفتی عبد الرشید قاسمی، مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی، مولانا محمد انیس خاں قاسمی، مولانا محمد انعام اللہ قاسمی کے ساتھ مولانا انیس الرحمن قاسمی، مفتی محمد سعید خاں قاسمی، قاری عبد المعید چودھری، مولانا مطلوب عالم ندوی، قاری محمد آصف ثاقبی، مولانا ظفر عالم ندوی، مولانا توحید احمد ندوی، مولانا محمد سہیل قاسمی، قاری محمد عاصم، مولانا محمد کلیم جامعی، قاری محمد شفیق، حافظ برکت اللہ، حاجی محمد صابر، حاجی مقصود احمد، قمر عالم، حاجی محمد رفیق عرف مونو کے علاوہ دیگر مقامی عوام و مصلیان مسجد موجود رہے۔ مولانا انصار احمد جامعی نے تمام آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔